لٹریچر فیسٹیول میں بک سٹال لگائے گئے۔ مصوری کے فن پاروں کی نمائش منعقد کی گئی۔ اس کے ساتھ ساتھ تصویری نمائش کا بھی اہتمام کیا گیا۔ ان کے علاوہ ڈونیشن کیمپ، اشیائے خورونوش کے سٹال بھی میلے کی زینت تھے۔
عطاء شاد میلہ میں ساز و زیملی دیوان اور مشاعرہ بھی ہوا۔ مشاعرہ کے خصوصی مہمان بلوچی زبان کے معروف شاعر مبارک قاضی تھے۔
لٹریچر فیسٹیول میں منعقدہ کتاب میلے کی اختتامی رپورٹ کے مطابق میلے میں مجموعی طور پر 35 لاکھ روپے سے زائد مالیت کی کتابیں فروخت ہوئی ہیں۔
دانشوروں، شعراء، ادباء، سیاست دانوں اور معاشی ماہرین نے مختلف موضوعات سے متعلق بحث مباحثوں میں حصہ لیا جن میں بلوچستان کی سماجی و معاشی ضروریات، زبان اور سیاست، بلوچی ادب میں ترجمے کی اہمیت، عطا شاد کی یادوں کا آئینہ، سماجی ترقی میں خواتین کا کردار، اور دیگر موضوعات شامل تھے۔ ان محافل میں سابق وزیر اعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ، سینیئر معاشی ماہر قیصر بنگالی، معروف تاریخ دان ڈاکٹر شاہ محمد مری، ڈاکٹر فاروق بلوچ، ڈاکٹر واحد بزدار، ڈاکٹر بدل خان، مصنف اللّٰہ بشک بزدار، ڈاکٹر اے آر داد، ڈاکٹر فضل خالق، صورت بھائیاں اور دیگر شعراء و ادباء شریک ہوئے۔
معروف دانشور و تاریخ دان ڈاکٹر فاروق بلوچ اور ڈاکٹر شاہ محمد مری نے کہا کہ ہمیں بہت خوشی ہوئی کہ کیچ کے عوام نے اس ادبی میلے کو چار چاند لگا دیے۔ جب ہم سٹیج پر بلوچستان کی تاریخ پر بات کر رہے تھے تو ہمیں محسوس ہوا کہ کیچ کے لوگ علم کے پیاسے ہیں۔ انہوں نے اتنی خاموشی سے ہمیں سنا کہ ان کی دل کے دھڑکنوں تک کی آواز ہمارے کانوں میں پہنچ رہی تھی۔
سیاسی وسماجی حلقوں سے تعلق رکھنے والے مختلف افراد کے ساتھ ساتھ طلبہ وطالبات، بزرگوں اور بچوں نے بھی میلے میں شرکت کی اور فیسٹیول کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان اکیڈمی تربت کی ٹیم کی کاوشوں کو سراہتے ہیں جنہوں نے اس طرح کی عظیم الشان تقریب منعقد کرائی۔
ادب سے وابستہ شائقین نے محظوظ ہو کر کہا کہ کتاب میلے سماج کو زندہ رکھنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ انہوں نے اظہار خیال کیا کہ کتب بینی سے ہمیں اپنی تاریخ اور جغرافیے کا علم ہو گا۔
حاظرین نے اکیڈمی کے نو منتخب عہدیداران اور رضاکاروں کو سراہا کہ انہوں نے ایک بہترین اور کامیاب تقریب کا انعقاد کیا جس سے ہمیں بہت استفادہ حاصل ہوا۔ انہوں نے مزید کہا کہ فیسٹیول میں ہم نے بلوچستان کی تاریخ، سیاست، جغرافیہ اور معاشی حوالے سے بہت سیکھا۔